حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، املو مبارکپور،اعظم گڑھ/ نہایت افسوس کے ساتھ یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ آیت اللہ سرکار شمیم المت مولانا شمیم الحسن صاحب قبلہ سربراہ جامعہ جوادیہ بنارس کے بھائی حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید ولی الحسن رضوی ولی ؔاعظمی صاحب کا آج قم ایران میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم علم و تقویٰ کے پیکر ، سنجیدگی و متانت کی علامت اور مثالی معلم ہونے کے سبب ’’استاد نمونہ‘‘کا اعزاز یافتہ تھے اور اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں بسر کی۔ ان کی علمی و دینی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین
آپ کا مختصر تعارف اور زندگی نامہ ذیل میں پیش ہے:۔
- نام: سید ولی الحسن رضوی
- تخلص: ولی اعظمی
- والد:آیۃ اللہ سید ظفرالحسن رضوی طاب ثراہ (حضرت گمنام اعظمی)
- ولادت :۱۹۵۲ء۔بنارس،اترپردیش،ہندوستان
- وطن:مٹھن پور،نظام آباد،ضلع اعظم گڑھ (اترپردیش) ہندوستان
- تعلیم : فاضل حوزہ علمیہ قم ،ایران۔ایم اے (تاریخ)ایم اے (ادبیات فارسی)
- مشغلہ:۲۰۰۲ءمیں صداوسیما تہران سے سبکدوش
- پتہ:تہران ،ایران
حجۃ الاسلام مولانا سید ولی الحسن رضوی اعظمی کا عہد حاضر کے محترم اور بزرگ علماء میں شمار ہوتا تھا۔والدین کے زیر سایہ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔چونکہ علمی ماحول میں نشوونما ہوئی لہٰذا حصول علم اپنی زندگی کا خاصہ بنا لیا۔جامعہ جوادیہ بنارس میں داخلہ لیااور وہیں سے عالم کی سند حاصل کی۔اس کے بعد دنیاوی تعلیم کا شوق پنپنے لگا تو نیشنل انٹر کالج میں داخلہ ہوا ۔وہاں سے ہائی اسکول کرنے کے بعد ہریش چندر انٹر کالج سے انٹر میڈیٹ کیا۔پھر علی گڑھ کا سفر کیا اور اپنے برادران بزرگ کی طرح اپنے برادر نسبتی مولانا ڈاکٹر سید محمد رضا نقوی کی نگرانی میں مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور پھر پوسٹ گریجویشن تاریخ میں کیا۔ اس طرح M.Aکی سند حاصل کرنے کے بعد پھر بنارس آگئے ۔یہاں آکر بنارس ہندو یونیورسٹی سے ادبیات فارسی میں M.Aکی دوسری سند حاصل کی۔اکرام حسین پریس جو نشرواشاعت کا اہم مرکز تھا اس سے وابستہ ہو گئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔اسی زمانہ میں جامعہ جوادیہ سے نکلنے والے ماہنامہ الجواد کی اشاعت کے امور بھی بہتر طور پر انجام دیتے رہے۔
آیۃ اللہ سرکار ظفرالملت ؒ کے انتقال کے بعد سرکار شمیم الملت مدظلہ العالی کی ایماء پر اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے ۱۹۸۴ءمیں قم المقدسہ ایران تشریف لے گئے ،وہاں مدرسہ حجتیہ میں قیام رہا۔اس زمانہ میں اعلیٰ اساتذہ سے کسب فیض کرتے رہے۔۱۹۸۵ءسے ۱۹۹۵ءتک قم سے نکلنے والے علمی، فکری اور ادبی رسالہ ’’توحید‘‘ کی ادارت فرمائی۔اس زمانہ میں مضامین بھی کثرت سے لکھےاور تراجم بھی کئے۔۱۹۹۷ءمیں تہران ریڈیو اسٹیشن کی اردو سروس سے وابستہ ہوئے ۔اور پھر وہیں ٹیلی ویژن سے بھی مسلسل پروگرام نشر کرتے رہے۔آپ نے تاریخی مواقع پر خصوصی پروگرام کے علاوہ بچوں کے علمی و فکری ذوق کی تشویق کے لئے مختلف پروگرام بنائے یہ سلسلہ ۲۰۲۰ء تک بحسن و خوبی جاری رہا۔اسی درمیان مقام معظم رہبری کی اردو ویب سائٹ کی نظارت بھی فرماتے رہے۔
ایک شخص ایک وقت میں اچھا نثر نگار ہو سکتا ہے یا بہترین شاعر مگر بیک وقت دونوں خوبیوں کو اپنے اندر سمیٹ لینا یہ ہنر مندی ہے جو چیدہ چیدہ افراد میں ہی میسر آتی ہے۔
الحمد للہ حضرت ولی ؔاعظمی نے نثر میں قلم اٹھایا تو بے شمار مضامین کا ذخیرہ لگا دیا۔اور نظم میں طبع آزمائی کی تو ضخیم مجموعہ یکجا کرلیا۔جب تک سانس چلتی رہی قلم میں جنبش رہی اور اورتحریری سلسلہ بھی جاری رہا۔آپ کی تالیفات کے علاوہ جو سب سے گراں بہا کارنامہ ہے وہ تفسیر ظفرالبیان ہے۔یہ تفسیر تہران سے نشر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہنامہ الجواد بنارس میں بھی قسط وار شائع ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ بسیار مقالے اور مضامین ہندوستان اور پاکستان کے معتبر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔۲۰۰۲ءمیں قم کے فاضل طکباء کی تحقیقات کی رہنمائی کرنے کی بنیاد پر حوزہ علمیہ قم سے مثالی معلم ہونے کے سبب ’’استاد نمونہ‘‘کا اعزاز بھی ملا۔
شاعری ورثہ میں ملی تھی اور شہر بنارس کا ادبی ماحول بھی معین بنا ۔ابتداء سے ہی شعر گوئی کی مشق جاری تھی۔رفتہ رفتہ ایک پختہ اور معتبر شاعر کے طور پر شہر بنارس اور اطراف میں شہرت حاصل کی۔ آپ نے قصیدے کہے اور تمام لوازمات کے ساتھ کہے۔رفتہ رفتہ موقعیت کے پیش نظر طرحی محافل میں منقبتیں پیش کرتے رہے ۔مختلف موضوعات پر نظمیں بھی کہی ہیں۔مثنوی روم کا اردو منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔قطعات اور سلام بھی کہے ہیں ‘‘۔(ماخوز از خانوادہ گمنام کے نامور شعراء ،مولفہ نصیر اعظمی علیگ،صفحہ ۹۷)
میری مولانا ولی الحسن صاحب قبلہ مرحوم سے تفصلی ملاقات شہر بنارس کے لوگوں کی عقیدت کا مرکز مشہور درگاہ ’’ فاطمان‘‘ جہاں ایران کے مشہور عالم دین علامہ شیخ علی حزیں طیب اللہ رمسہ کی مزار واقع ہے وہاں پر بتاریخ ۲۲؍مئی ۲۰۲۲ء بروز اتوار بوقت ۹؍بجے دن آیۃ اللہ سید شمیم الحسن الرضوی حفطہ اللہ کے خویش مولانا سید اعجاز حسنین غدیری طاب ثراہ کی مجلس چہلم کے دوران ر میری تالیف کردہ کتاب ، انٹر نیشنل نور مائیکرو فلم سینٹر نئی دہلی کی جانب سے طبع شدہ کتاب ’’تاریخ جامعہ جوادیہ ،بنارس ‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر ہوئی تھی ۔اس کے بعد ایران سے بھی برابر تیلیفونک رابطہ رہتا تھا۔افسوس اب وہ شیریں و خوشگوار آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی جس کو سن کر د ل کو سرور و سکون میسر ہوتا تھا؎
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
برادر عزیز حجۃ الاسلا م مولانا سید محمد محسن جونپوری واعظ قمی اور جناب مولانا نصیر اعظمی صاحب کی اطلاع کے مطابق حجۃ الاسلام مولانا سید ولی الحسن صاحب قبلہ کا قم المقدسہ ایران میں ان کی ذاتی رہائش گاہ پر گزشتہ شب حدود ۱۱؍بجے انتقال ہوا اور تدفین انشاءاللہ کل قم المقدسہ ایران میں انجام دی جائے گی ۔مراسم تجہیز و تدفین وغیرہ میں شرکت کی غرض سے حجۃالاسلام مولانا سید ضمیر الحسن رضوی صاحب قبلہ استاد جامعہ جوادیہ بنارس و حجۃ الاسلام مولانا سید ندیم اصغر رضوی صاحب قبلہ کے ہمراہ مولانا مرحوم کے چھوٹے بیٹے بریر ظفر اور دیگر قریبی اعزاء انڈیا سے ایران کے لئے آج رات میں بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوں گے ۔سرکار شمیم الملت مد ظلہ بھی بہت گریہ کناں ہیں تدفین میں شرکت کے لئے ایران جانے کے لئے بے قرار ہیں مگر پیرانہ سالی اور ناسازی طبیعت کے باعث افراد خانہ نے انھیں سفر سے روک لیا ہے۔ مرحوم کی اولاد میں دو بیٹے ایک بڑے بیٹے جناب مولانا سید زہیر ظفر اور دوسرے چھوٹے بیٹے بریر ظفر اور دوبیٹیاں ہیں۔ حجۃ الاسلام مولانا سید ولی الحسن صاحب قبلہ کے سانحہ ارحال پر مرحوم کے لئے مغفرت او رجنت میں بلندی درجات کی دعاء کے ساتھ ہم مرحوم کے جملہ لواحقین و متعلقین،خانوادہ سرکار ظفرالملت ؒ،علماء و طلباء و مراجع عظام بالخصوص حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فجہ الشریف کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔
فوٹو:کتاب ’’تاریخ جامعہ جوادیہ بنارس‘‘ کی رسم اجراء کے موقع کی ایک یادگار تصویرجس میں حجۃ الاسلام مولانا سید ولی الحسن صاحب قبلہ مرحوم میرے ساتھ کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔
سوگوار
حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ
ترجمان مجمع علماءوواعظین پوروانچل ،ہندوستان
یکم ؍اپریل ۲۰۲۵ء
آپ کا تبصرہ